تفسير ابن كثير



سورۃ الشوريٰ

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَإِنْ يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَى قَلْبِكَ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ[24]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، سو اگر اللہ چاہے توتیرے دل پر مہر کر دے اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنی باتوں کے ساتھ ثابت کر دیتا ہے، یقینا وہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔ [24]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا یہ کہتے ہیں کہ (پیغمبر نے) اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگادے اور اللہ تعالیٰ اپنی باتوں سے جھوٹ کو مٹا دیتا ہے اور سچ کو ﺛابت رکھتا ہے۔ وه سینے کی باتوں کو جاننے واﻻ ہے [24]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے خدا پر جھوٹ باندھ لیا ہے؟ اگر خدا چاہے تو (اے محمدﷺ) تمہارے دل پر مہر لگا دے۔ اور خدا جھوٹ کو نابود کرتا اور اپنی باتوں سے حق کو ثابت کرتا ہے۔ بےشک وہ سینے تک کی باتوں سے واقف ہے [24]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 24،

جاہل کفار کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانا ٭٭

پھر فرماتا ہے کہ یہ جاہل کفار جو کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو نے گھڑ لیا ہے اور اللہ کے نام لگا دیا ہے ایسا نہیں اگر ایسا ہوتا تو اللہ تیرے دل پر مہر لگا دیتا اور تجھے کچھ بھی یاد نہ رہتا جیسے فرمان ہے «وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ» [ 69- الحاقة: 44 ] ‏‏‏‏، اگر یہ رسول ہمارے ذمے کچھ باتیں لگا دیتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ کر ان کے دل کی رگ کاٹ ڈالتے اور تم میں سے کوئی انہیں اس سزا سے نہ بچا سکتا۔ یعنی یہ اگر ہمارے کلام میں کچھ بھی زیادتی کرتے تو ایسا انتقام لیتے کہ دنیا کی کوئی ہستی اسے نہ بچا سکتی۔

اس کے بعد کا جملہ «أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّـهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّـهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ» [سورةالشورى 42:24 ‏‏‏‏‏‏‏‏] ‏‏‏‏، «یَخْتِمْ» پر معطوف نہیں بلکہ یہ مبتدا ہے اور مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ «یَخْتِمْ» پر عطف نہیں جو مجزوم ہو۔ واؤ کا کتابت میں نہ آنا یہ صرف امام کے رسم خط کی موافقت کی وجہ سے ہے جیسے آیت «سَـنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ» [ 96- العلق: 18 ] ‏‏‏‏ میں واؤ لکھنے میں نہیں آئی۔ اور آیت «‏‏‏‏وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا» ‏‏‏‏ [ الإسراء 17: 11 ] ‏‏‏‏ میں واؤ نہیں لکھی گئی ہاں اس کے بعد کے جملے «اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ» ‏‏‏‏ [ 8- الانفال: 7 ] ‏‏‏‏ کا عطف «وَيَمْــحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ ۭ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ» [ 42- الشورى: 24 ] ‏‏‏‏، پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ حق کو واضح اور مبین کر دیتا ہے اپنے کلمات سے یعنی دلائل بیان فرما کر حجت پیش کر کے وہ خوب دانا بینا ہے دلوں کے راز سینوں کے بھید اس پر کھلے ہوئے ہیں۔
8152



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.